ایران چین جامع تزویراتی اشتراک کا معاہدہ

 


استعماری قوتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی انھوں نے مخالف طاقتوں کے ساتھ معاہدے کیے، ان کا مقصد معاہدوں پر عمل درآمد کے بجائے محض وقتی طور پر حالات کا اِلتوا رہا ہے۔ جوں ہی حالات بدلتے ہیں تو یہ گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتی ہیں۔ وہ موقع کی تلاش میں رہتی ہیں۔ جوں ہی حالات اپنے حق میں محسوس کرتی ہیں، مخالف فریق پر حملہ کرکے تہس نہس کردیتی ہیں۔ جب تک استعمار کی طاقت سلب نہیں ہوتی، اس کا رویہ تبدیل نہیں ہوتا، وہ ڈنگ مارنے کی عادت سے باز نہیں آتا۔ دوسری طرف انسانی اقدار کی حامل قوتیں معاہدات کرتی ہیں۔ باوجود طاقت و قوت کے جنگ و جدل کو ختم کرکے امن وسلامتی کو یقینی بناتی ہیں۔ کیوں کہ اس کے بغیر ارتقائے انسانیت کا عمل بحال نہیں ہوسکتا۔ یہی امن و سلامتی عبادت کہلاتی ہے۔ اس صورتِ حال کو مستقل بنیادوں پر اُستوار رکھنے کے لیے معاہدات کیے جاتے ہیں۔ معاہدہ بنیادی طور پرفریقین کے باہمی مفادات کے تحفظ کی ضمانت ہوتا ہے۔ انسانی اقدار کی حامل قوتیں ان معاہدات کا احترام اور پاسداری کرتی ہیں۔ اس دوران اگر جانی و مالی قربانی بھی دینی پڑے تو گریز نہیں کرتیں۔ ا س کے برعکس استعمار اپنے قابلِ مذمت مقاصدکے لیے بعض اوقات ایسے حلقوں کا تعاون بھی حاصل کر لیتا ہے، جن کا دنیا میں معاہدات کے احترام کا بھرم قائم ہوتا ہے۔ حال آںکہ حقیقت میں وہ ان کی حیثیت کا ناجائز استعمال کررہا ہوتا ہے۔ کیوںکہ جب کبھی انھیں اندیشہ ہو کہ مخالف فریق کے تقاضے پورے ہورہے ہیں، وہ فوراً ان معاہدات کو طاقِ نسیاں پر رکھتے ہوئے، علاحدگی اختیار کرکے اپنے وعدوں سے مکر جاتا ہے۔ ان کا یہی فعل شیطانی اور انسانی اقدار کے حاملین کے مابین فرق کو واضح کرتا ہے۔

27؍ مارچ 2021ء کی رپورٹ کے مطابق اسی دن دوپہر3 بج کر 44 منٹ پر ایران کے دارلحکومت تہران میں چین اور ایران کے درمیان 25 سالہ جامع تعاون سمجھوتے پر دستخط ہوگئے ہیں۔ اسی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی اقتصادی پابندیوں کے باوجود چین اور ایران نے 25 سالہ تعاون کے معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔ اس کے نتیجے میںدونوں قوموں کے درمیان طویل عرصے پر محیط معاشی اور سیاسی اتحاد مزید مضبوط ہو جائے گا۔ مذکورہ نیوز ایجنسی کے مطابق اگرچہ دونوں قوموں کے درمیان تعلقات تو پُرانے چلے آرہے ہیں، لیکن ا س معاہدے سے یہ تعلقات تزویراتی اشتراک (مشترکہ جغرافیائی دفاع) کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف کا کہنا ہے کہ: ’’دونوں ممالک کے درمیان تعلقات آج تزویراتی اشتراک کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں، اور چین چاہتا ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات نہ صرف مزید بہتر ہوں، بلکہ جامعیت کے ساتھ آگے بڑھیں‘‘۔ چینی وزیر خارجہ وانگ جی نے کہا ہے کہ ’’ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات حالیہ صورتِ حال کی وجہ سے متأثر نہیں ہوں گے‘‘۔

اسرائیلی اخبار ’’ٹائمز آف اسرائیل‘‘ کی 27؍ مارچ 2021ء کی رپورٹ کے مطابق چین ایران میں 400 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے اور بدلے میںتیل حاصل کرے گا۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ: معاہدے سے فوجی تعلقات مستحکم ہوں گے اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اثر و رُسوخ ماند پڑ جائے گا۔ امریکی اقتصادی پابندیاں غیرمؤثر ہوکر رہ جائیں گی۔ امریکی اخبار ’دی ڈِپلومیٹ‘ کے مطابق چینی وزیر خارجہ مشرقِ وسطیٰ کے 6 ملکی دورے پر پہلے مرحلے میں ایران پہنچے تھے۔ اس کے بعد سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات، بحرین اور عمان جائیںگے۔ ایران میں قیام کے دوران چینی وزیر خارجہ نے ایران چین 25 سالہ تز ویر اتی تعاون کا معاہدہ کرکے امریکی اقتصادی پابندیوں کے باعث پیدا ہونے والے مسائل کے تدارُک کا بندوبست کیا ہے۔ چینی وزیرِ خارجہ نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’دنیا کے حالات جو بھی رُخ اختیار کریں، کوئی مسئلہ نہیں۔ ایران کے ساتھ تعلقات اسی طرح مضبوط اور مستحکم رکھنے میں چین اپنے ارادے میں مصمم ہے‘‘۔ انھوں نے امریکی پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ: ’’یک طرفہ اور نامناسب اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں تھیں‘‘۔ امریکی خبررساں ایجنسی ’بلوم برگ‘ لکھتا ہے کہ: تہران میں فتح کے ساتھ اعلان کردہ اس معاہدے کومغرب کے حلقوں میں خطرے کی گھنٹی کے طور پر لیا گیا ہے۔ معاہدے سے امریکی پابندیوں کی ایرانی خلاف ورزی اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کرنا مقصود ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ایرانیوں کا کہنا ہے کہ: اس معاہدے کی تیاری میں پانچ سال کا عرصہ لگا ہے، جس کے نتیجے میں 24؍ مارچ 2021ء کو تہران میں چین نے 400 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ ایک اَور حلقے کا کہنا ہے کہ: ’’ایران چین معاہدہ واشنگٹن کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے‘‘۔

 ہے،عالمی سیاست میں مشرقِ وسطیٰ کا کردار ایک سیاسی آئینے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، جہاں اقوامِ عالم میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کا عکس نظر آتا ہے۔ جو قومیں معاہدات کا احترام کرتی ہیں، انھیں کے کردار سے دنیا روشن ہے۔ ایسی قومیں پہلے قومی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں، جس کے باعث اقوامِ عالَم میں ان کا اعتماد بڑ ھنا شروع ہوجاتا ہے۔ چین اور ایران آج کے عہد میں انھیں میں شمار ہوتے ہیں۔ جو قوتیں معاہدات کا احترام نہیں کرتیں، ان کا اثر و رُسوخ سکڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ وہ تاریخ کے اوراق میں غائب ہوجا تی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں اُبھر نے والی قوتوں میں ایرانی سرِفہرست ہیں۔ انھیں اپنی عوام کے ساتھ کیے گئے معاہدات کی پاسداری کی سزا دی گئی۔ اگر چہ آج ایرانی انقلاب کو آئے 40 سال بیت چکے ہیں، چوں کہ استعماری طاقتوں کی سازشوں کے باعث اسے نہ صرف اپنی سرحدوں میں ہی محدود ہونا پڑا، بلکہ اس نے سخت ابتلائیں بھی برداشت کیں۔ آج حالات اس سمت بڑھنا شروع ہو گئے ہیں کہ استعماری طاقتیں اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں اُلجھنا شروع ہوگئی ہیں۔ آج یورپی طاقتوں کا برملا اظہار کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ نظروں سے اوجھل ہوتا دکھائی دیتا ہے، اسی کا عملی ثبوت ہے۔ کیوں کہ استعمار نے اپنے آلہ کار حلقوں کو اپنی حکمتِ عملی سے اتنا نااہل اور ناتواں بنا دیا ہے، جس کے باعث آئندہ ان سے کسی قسم کے کردار کی توقع نظر نہیں آتی۔

Comments

Popular posts from this blog

The role of Pakistan’s General Zia-ul-Haq in the 1970 massacre of 25,000 Palestinians in Jordan