اسرائیل کا قیام
دنیا میں کوئی بھی واقعہ یکدم رونما نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق ماضی کے واقعات یعنی تاریخ سے ہوتا ہے۔ شام کے حالات کو سمجھنے کیلئے اس علاقےکی حالیہ تاریخ کو جاننا بہت ضروری ہے۔ جس وقت عالمی طاقتوں نے جنگ عظیم دوم کی وجہ سے کمزور ہو جانے اور غلام بنائی گئی اقوام میں بڑھتی ہوئی آزادی کی تحریکوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ سے نکلنا چاہا تو ان کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ ایشیا اور افریقہ کے معدنی وسائل کی مغربی دنیا کے صنعتی ممالک میں ترسیل کو کیسے محفوظ بنایا جاۓ؟ جدید صنعت اور معیشت کیلئے درکار توانائی مشرق وسطیٰ کے تیل اور خام مال کی ضروریات افریقہ اور برصغیر کی معدنیات اور زراعت سے پوری ہوتی تھیں اور یہ چیزیں مصر کی نہر سویز اور فلسطین کے ساحل سمندر کے راستے مغربی منڈیوں میں پہنچتی تھیں۔ دوسری طرف پچھلے دو ہزار سال سے یورپ میں بسنے والے یہودی اپنے خلاف ہونے والے امتیازی سلوک کی وجہ سے اب فلسطین یا امریکا کی طرف ہجرت کر نے لگ گئے تھے۔
یورپ میں بسنے والے یہودیوں میں سے کچھ تو وہ تھے جن کے آبا و اجداد بنی اسرائیل کی نسل سے تعلق رکھتے تھے، یہ لوگ فلسطین پر رومیوں کے قبضے کے بعد یورپ پہنچے تھے۔ لیکن اکثر یہودیوں کا تعلق روسی نسل سے تھا جو اشکنازی کہلاتے تھے۔ اشکنازی یہودیوں کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں ہے۔بلکہ یہ نیلی آنکھوں اور گوری رنگت والے لوگ دو ہزار سال پہلے یہودی مذہب اختیار کرنے والے ایک روسی قبیلے کی نسل سے ہیں جو موجودہ یوکرین اور روس کے کچھ علاقوں میں آباد تھا۔ ماضی بعید میں بنی اسرائیل کے یہودیوں کی اکثریت نے فلسطین میں رہتے ہوۓ اسلام قبول کر لیا تھا۔ نہ صرف اسلام کا نظریہ توحید ان کے عقائد کے قریب تھا، بلکہ اسلام قبول کرنے والوں کو جزیہ بھی نہیں دینا پڑتا تھا۔ یورپ میں یہودیوں کو نہ صرف مذہبی اختلاف کی وجہ سے نفرت کا نشانہ بنایا جاتا تھا بلکہ نسل پرستی کی وجہ سے بھی انہیں امتیازی سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ ہر حادثے یا ناکامی کو یہودیوں کی سازش کہا جاتا۔ اس نفرت کی وجہ سے بعض یہودیوں نے جنگ عظیم دوم سے پچاس سال قبل اپنے مذہب کی تعلیمات کے برعکس یہودی ریاست کے قیام کا خیال اپنایا۔ یہ لوگ صیہونی کہلاتے تھے اور مغربی اقوام کی طرف سے کینیڈا، امریکا اور آسٹریلیا اور دنیا کے دوسرے حصوں میں کمزور اقوام کے مادی وسائل پر قبضے سے متاثر تھے ۔یہ مذہب پر یقین نہیں رکھتے تھے لیکن یہودی نسلوںسے تعلق رکھنے اور یورپ میں نسلی تعصب کا نشانہ بننے کی وجہ سے قوم پرست بن چکےتھے۔ انہوں نے پہلے یوگنڈا کو اپنی سیٹلر کولونیل ریاست کیلئے موزوں جگہ قرار دیا۔لیکن چونکہ یہودی عوام میں اس جگہ کی کوئی کشش نہیں تھی، لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں فلسطین میں جا کر اس ریاست کی بنیاد رکھنی چاہئیے تاکہ شہریوں کی مطلوبہ تعداد پوری کرنے میں مذہبی وابستگی کو استعمال کیا جا سکے۔ شروع میں ان کے اس منصوبے کو یہودیوں کی اکثریت نے قبول نہیں کیا۔ البتہ جرمنی میں نسل پرست نازی حکومت آنے کے بعد اس مذہب بیزار تنظیم کو بہت پذیرائی ملی۔ ہٹلر یہودیوں کو باقی غیر جرمن اقوام کی طرح پست سمجھتا تھا اور اس نے نسلی تعصب کی وجہ سے یورپ کے مفتوحہ علاقوں میں یہودی اور ہندوستانی نسل کے''جپسی''باشندوں کا قتل عام شروع کر رکھا تھا۔ اس قتل عام کے خوف سے یہودی یا تو امریکا بھاگ رہے تھے یا صیہونی تحریک کی پیروی کرتے ہوۓ فلسطین جا رہے تھے۔ اسی قتل عام کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ اکثر یہودی خدا پر یقین کھو بیٹھے۔جنگ عظیم دوم کے بعد جب مردم شماری ہوئی تو معلوم ہوا کہ یورپی آبادی میں ساٹھ لاکھ یہودی کم ہو چکے تھے۔ ان ساٹھ لاکھ میں سے اکثر جنگ کے دوران مظلومی کی موت مارے گئے۔
صیہونی تحریک کیلئے سب سے بڑا مسئلہ دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین کی طرف ہجرت کرنے پر مائل کرنا تھا۔ یہودی یورپ کے علاوہ مشرق وسطیٰ، برصغیر اور افریقہ میں بکھرے ہوۓ تھے۔ یورپ کے یہودی اپنے اپنے ممالک اور ان کے موسم اور ثقافت سے محبت کرتے تھے، اور ان کے علمی اور مالی حالات بہتر تھے۔ اگرچہ انھیں نفرت پر مبنی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا مگر پھر بھی کسی بھی انسان کیلئے اپنی جائیداد اور وطن چھوڑ کر کسی دوسرے انسان کی جائیداد اور وطن پر قبضہ کرنا آسان فیصلہ نہیں ہوتا۔ فلسطین کی آب و ہوا بھی ان کیلئے زیادہ پر کشش نہ تھی۔ مشرق وسطیٰ ، افریقہ اور برصغیر میں بسنے والے یہودیوں کے حالات ان علاقوں کے باقی باشندوں جیسے تھے۔ انھیں کسی نسلی امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ صیہونی تحریک کو ملک بنانے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں یہودی چاہئیے تھے۔ یہ ضرورت اس وقت پوری ہوئی جب یورپ میں ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام شروع کیا اور اس کے نتیجے میں پانچ لاکھ یہودی فلسطین آ گئے۔ اگر ہولو کاسٹ نہ ہوتا تو اسرائیل کا قیام اورپھر اسکا دفاع افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے نا ممکن ہو جاتا۔ دوسری طرف اسرائیل کے قیام کا اعلان سن کر مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں یہودیوں کے خلاف نفرت نے جنم لیا جس کی وجہ سے ان علاقوں سے بھی یہودی فلسطین کی طرف چلے گئے۔ آج بھی یہودیوں کو مسلمان علاقوں سے نکالنے کیلئے القاعدہ جیسی تنظیموں کی دہشتگردی ایک اہم اوزار ہے ۔ پاکستان میں بسنے والے یہودیوں کو ڈرا کر فلسطین منتقل کرنے کا سہرا فروری 2002میں ڈینیل پرل نامی یہودی صحافی کے قاتلوں کو جاتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی علاقے سے یہودی آبادی کو نکالنے کا مطلب فلسطینیوں کی زمین پر قبضے میں حصہ ڈالنا ہے۔ یہ یہودی جب اسرائیل جائیں گے تو اسرائیلی حکومت انہیں کسی نہ کسی فلسطینی کی جائیداد پر ہی بسائے گی۔ یہ سادہ سی بات سمجھنے کیلئے جذبات کے بجاۓ عقل کا استعمال کرنا پڑتا ہے ۔ نہ صرف یہ کہ یہ فلسطینیوں کے ساتھ دشمنی ہے بلکہ صیہونیوں کے جرائم کی سزا اپنے ہم وطن یہودیوں کو دینا اخلاقی اور اسلامی لحاظ سے بھی غلط ہے۔اس حوالے سے اتاترک کے ترکی کا کردار کافی مثبت رہا، ترکی میں بسنے والے یہودیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور نہ کیا گیا۔ آج مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے بعد یہودیوں کی سب سے بڑی تعداد ترکی میں بستی ہے۔ ایران نے بھی اپنے ملک میں یہودی اقلیت کے حقوق کو یقینی بنا کر انکی اسرائیل منتقلی کے عمل کو روکا ہے۔
جنگ عظیم دوم کے دوران یورپ سے فلسطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت نے مغربی طاقتوں کو ایک بڑے مسئلے کا حل فراہم کر دیا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد مشرق وسطیٰ کو ترک کرتے ہوۓ یورپ کی ایشیا اور افریقہ کے خام مال اور منڈیوں تک رسائی کی نگرانی ایک ایسی ریاست کے ذریعے کی جا سکتی تھی جو مقامی باشندوں سے ہمیشہ حالت جنگ میں رہے۔ ایسی صورت میں یہ ریاست ہر وقت مغربی طاقتوں کی محتاج رہے گی اور ان سے تعلقات اسکی مجبوری ہو گی۔ اس پس منظر میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔مقامی باشندوں کو بھی فلسطین کے آباد علاقوں میں ایک ریاست بنانے کا وعدہ کیا گیا۔یہ علاقے آج کل بین الاقوامی قانون میں غزہ اور مغربی کنارے تک محدود ہیں لیکن یہاں کے باشندوں کو مکمل شہری حقوق ابھی تک حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔
جنگ عظیم دوم میں جب ہٹلر یہودیوں کو مار رہا تھا تو باقی ممالک اور خود جرمن عوام نے اس ظلم پر کوئی توجہ نہ دی، یہ مغرب میں یہودیوں کو کم تر انسان سمجھے جانے کے ایک بہت گہرے رجحان کی عکاسی تھی۔ یورپ کی تاریخ اور ادب میں یہودیوں سے نفرت کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہاں تک کہ مغربی روشن خیالی کی تحریک کے بڑے بڑے علمبرداروں کی تحریروں میں جہاں بڑے جدید اور روشن تصورات پائے جاتے ہیں وہیں یہودیوں سے تعصب جیسا کھلا تضاد بھی دکھائی دیتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے باشندوں کے بارے میں بھی ان حضرات کے خیالات دوہرے معیار پر مبنی رہے ہیں، جن کا احاطہ ایڈورڈ سعید نے اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ امن، مساوات اور انسان دوستی کی باتوں میں انسان سے مراد یورپی نسل کا انسان لیا جاتا رہا ہے۔ اس وجہ سے جہاں صیہونی تحریک کے یہودی جمہوریہ کے تصور کو یہودی عوام میں پذیرائی ملی وہیں اسرائیل کے قیام کے بعد یورپی ممالک میں اسرائیل کے تحفظ کو یہودیوں کے واپس نہ آنے کی ضمانت سمجھا گیا۔
جنگ عظیم دوم کے بعد ہولو کاسٹ میں ساٹھ لاکھ انسانوں کے قتل عام پر بہنے والے اکثر آنسو مگر مچھ کے آنسو ہیں۔ جب یہ قتل عام ہو رہا تھا تو اس کو میڈیا میں اور جنگ کے فیصلوں میں کوئی اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا جنگ عظیم اول میں ترکی کی طرف سے پندرہ لاکھ آرمینی باشندوں کے قتل عام کے معاملے میں کیا گیا ۔ البتہ جنگ عظیم دوم کے بعد عالمی طاقتوں نے فلسطین میں صیہونیوں کے جرائم سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور ان کی پشت پناہی کرتی رہی ہیں۔ اس سلوک کی وجوہات تہہ در تہہ ہیں۔ ایک تو اسرائیل یہودیوں کے یورپ سے نکلنے اور واپس نہ آنے کو یقینی بناتا ہے۔ دوسرے یہ مشرق اور مغرب کے سنگم پر موجود تجارتی راستوں کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے جو یورپ کی کاروباری ضرورت ہے۔ اس کی تیسری اہم وجہ مسیحی صیہونیت ہے۔ بہت سے مذہبی مسیحی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (ع) اس وقت تک دوبارہ ظہور نہیں کریں گے جب تک سب یہودی فلسطین میں اکٹھے نہیں ہو جاتے۔ انکے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ (ع)کے آنے پر ان یہودیوں کو عیسائیت اختیار کرنے اور موت میں سے ایک چیز کے انتخاب کا حق دیا جائے گا۔ اگرچہ یہ سوچ بھی بنیادی طور پر یہودیوں کے بارے میں نفرت پر مبنی ہے لیکن نسل پرستی والے عنصر کی طرح اس عنصر نے بھی اسرائیل کےلئے مغربی معاشروں میں بہت حمایت پیدا کی ہے۔ اسرائیل کو حاصل تحفظ کی چوتھی بڑی وجہ اسلام دشمنی ہے۔ یورپ کا اسلام سے واسطہ بہت پرانا ہے اور ہر مذہبی اختلاف کی طرح مسلم مسیحی اختلاف نے بھی نفرت کو جنم دے رکھا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ترکی، شامات اور شمالی افریقہ کو رومی سلطنت کے قبضے سے مسلمانوں نے آزاد کرایا تھا۔ مسیحی مبلغین کی اسلامی مخالف تبلیغ اور صلیبی جنگوں نے بھی مغربی ذہن پر گہرے اثرات چھوڑے۔ ان سب عوامل کو ذہن میں رکھے بغیر یا ان میں سے کسی ایک کا سادہ دلی یا جلد بازی کی وجہ سے انکار کر کے مشرق وسطیٰ کے حالات کو نہیں سمجھا جا سکتا
Comments
Post a Comment
Give Your Unique Opinion